خطبہ جمعہ بموقع الوداع

 *جمعۃالوداع کی حقیقت اور عید الفطر کے اوامر و نواہی*


جمعۃالوداع سچی توبہ کی جانب رغبت دلاتی ہے 


تحریر:مفتی اورنگ زیب مصباحی گڑھوا جھارکھنڈ

(رکن مجلس علمائے جھارکھنڈ) 


       معزز سامعین! ابھی ہم اور آپ ایک ایسی گھڑی سے گزر رہے ہیں کہ غم بھی ہے اور خوشی کا موقع بھی میسر آنے کو ہے، غم تو فرقت رمضان المبارک کی وجہ سے کہ رمضان المبارک کا یہ بابرکت مہینہ تو قیامت تک ہر سال آئے گا مگر آئندہ سال  نہ جانے اس کے استقبال کے لیے ہماری آنکھیں کھلی ہونگی یا نہیں ہماری زندگی وفا بھی کرے یا نہ کرے۔ 

      اور رہی بات خوشی کی تو اس لیے کہ جلد ہی ہمیں لیلۃ الجائزۃ اور عید سعید کا بہترین موقع سامنے ہوگا۔ 

اللہ تعالی فرماتا ہے "اے ایمان والو! اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے کو نصیحت ہوجائے قریب ہے کہ تمہارا رب تمہاری برائیاں تم سے اتار دے(کنزالایمان ص 1837) 

عزیز دوستوں! یقیناً رمضان المبارک کا آخری عشرہ توبہ و استغفار اور پھر اس کے ذریعے جہنم سے آزادی کا موزوں ترین وقت ہے، کیونکہ چند دنوں بعد یہ ماہ مغفرت ہمارے درمیان سے رخصت ہو جائے گا، ہم جہاں آمد رمضان المبارک سے خدا کی یادوں میں مست ہوئے تھے چند دنوں بعد ڈر ہے کہ اپنی کم نصیبی کی بنا پر دنیاوی امور میں مگن اور دین اور دینی معاملات میں سستی کے شکار نہ ہوجائیں۔ 

ع: مسجدوں میں بہار آگئی تھی

ذوق در ذوق آتے نمازی

ہوگیا کم نمازوں کا جذبہ

الوداع الوداع ماہ رمضان


*جمعۃالوداع کی حقیقت* 

     رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو جمعۃالوداع کہتے ہیں، یاد رہے یہ کوئی تیوہار نہیں بلکہ عام جمعوں کی طرح یہ بھی صرف جمعہ ہے، قرآن و حدیث میں اس کی الگ سے کوئی فضیلت نہیں آئی ہے۔ چونکہ یہ رمضان المبارک کا آخری جمعہ ہے اور الوداع کے معنی رخصتی ہے یعنی اب رمضان المبارک کا مقدس مہینہ رخصت ہونے کو ہے اس لیے اسے جمعۃالوداع کہنے لگے، موجودہ حالات کے پیش نظر لوگوں میں اس کی ایسی خصوصیات نہ بتائیں کہ غیر شرعی امور انجام کو پہنچیں مثلاً لوگوں میں اس جمعے کو بطور تیوہار یا چھوٹی عید بتانا کثیر خرافات کو وجود بخشنا ہے، جمعہ ہفتے کی عید ہے مگر یہ خصوصیت تمام جمعوں کو حاصل ہے۔ 

     اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی نے بھی یہی لکھا ہے کہ "الوداع کہ رائج ہے نہ کوئی شرعی حکم ہے نہ منع شرعی، ہاں علماء اس کا التزام نہ کریں کبھی ترک بھی کریں کہ عوام واجب نہ سمجھنے لگیں ، اور سچی الوداع قلب سے ہے کہ رمضان شریف کے آنے سے خوش ہو اور جانے سے غمگین، اور اگر یہ حالت ہو کہ آنا بار(بوجھ) تھا اور جانے کے لیے گھڑیاں گنیں تو جھوٹی الوداع ہے(فتاویٰ رضویہ ج 8ص453/54)

       یہ جمعہ چونکہ بابرکت رمضان المبارک کا آخری جمعہ ہے جو کہ فرقت رمضان المبارک کی جانب اشارہ کرتا ہے اور رمضان المبارک کی جدائی میں غمگین ہو کر رب کی بارگاہ میں آنسو بہا کر گڑگڑانے کا موقع ہے چونکہ جمعۃالوداع کہنا مباح ہے اور جب مباح میں حسن نیت شامل ہو جائے تو تو وہ خوبی بن جاتا ہے لہذا جمعۃالوداع کی اتنی خصوصیت ضرور ہے بابرکت مہینے کی جدائی، رحمتوں اور برکتوں کی شرح کم ہو جانا ہمیں سچی توبہ کی طرف رغبت دلاتی ہے کہ اے لوگو یہ آخری عشرہ جہنم سے آزادی کا ہے اور جہنم سے آزادی اسی وقت ممکن ہے جب سچی توبہ کی جائے اور اس پر قائم رہیں، یاد رہے یہ کوئی ضروری نہیں کہ اگلا رمضان ہمیں میسر آئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ آخری رمضان ہو اس لیے آئیں اور سچی توبہ کریں اور اس کا لحاظ کریں پچھلے ہی سال کی طرح رمضان کے رخصت ہوتے گناہوں میں ملوث نہ ہوجائیں، فرائض و واجبات سے غفلت نہ برتیں ، رمضان المبارک نے جو تمہیں پیغام دیا یعنی صبر و شکر ،نیکیوں کی رغبت اور برائیوں سے کنارہ کشی اس پر پورے سال عمل پیرا رہیں۔


ع: جب گزر جائیں گے ماہ گیارہ

تیری آمد کا پھر شور ہوگی

کیا بھروسہ میری زندگی کا

الوداع الوداع ماہ رمضان


      اس بات پہ مطمئن ہوکر بیٹھ جانا کہ ہمارا عمل اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہو گئے، بہت بڑی بھول اور خطا ہے۔ حضرات سلف صالحین رحمہم اللہ اعمال کو بدرجہ اتم اور درجہ کمال پورا کرتے تھے لیکن اس کے باوجود ان کے دل مطمئن نہیں ہوتے تھے عمل کے رد ہوجانے کا خوف فرساں روح بنا رہتا تھا، وہ نیکیوں میں یوں مگن رہتے کہ دیکھنے والا محو حیرت ہوتا مگر ان کا دل خشیت الہی سے لرزہ طاری ہوتا۔ 

     حضرت مالک بن دینار فرماتے ہیں "عمل کے قبول نہ ہونے کا خوف عمل سے زیادہ سخت ہے"

       بعض اسلاف سے منقول ہے کہ" وہ چھ ماہ تک دعا کرتے کہ یا اللہ ہمیں ماہ رمضان تک پہونچا دے، پھر چھ ماہ تک دعائیں مانگتے کہ الہی اسے ہم سے قبول بھی فرمالے "

      حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ جب رمضان المبارک کی آخری رات ہوتی تو آپ پکار کر کہتے"جن کے اعمال مقبول ہیں ہم انہیں مبارک باد دیتے ہیں، اور جن کے اعمال قبول نہیں ہم ان سے تعزیت کرتے ہیں، اے مقبول تجھے مبارک ہو اے مردود اللہ تیری معصیت ہلکا کرے، 

     حضرت عطاء السلمی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ"پرہیز اس چیز کا نام ہے کہ عمل صالح کرنے کے بعد یہ خوف پیدا ہو کہ ایسا نہ ہو کہ اللہ اسے قبول ہی نہ کرے۔ 

حضرت عبدالعزیز بن ابی رواد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اسلاف کو دیکھا ہے کہ نیک اعمال میں بڑی محنت کرتے اور پھر ان پہ غم طاری ہوجاتا کہ معلوم نہیں قبول ہوا یا نہیں۔ 

       بعض اسلاف سے منقول ہے کہ عید الفطر کے دن ان پہ غم کے آثار ابھر آتے اور ان سے کہا جاتا آج تو خوشی کا دن ہے اور آپ غمزدہ ہوئے بیٹھے ہیں؟ وہ فرماتے:

تم بالکل سچ کہتے ہو لیکن میں ایک عاجز بندہ ہوں میرے مالک نے حکم دیا تھا کہ میرے لیے عمل کرو لیکن میں نہیں جانتا کہ اس نے قبول کیا ہے یا نہیں؟

(وظائف رمضان لابن رجب ص 74) 

     بردران ملت اسلامیہ ان اقوال زریں اور افعال سلف صالحین سے پتہ چلتا ہے کہ ہمیں اس بات پہ مطمئن نہیں ہونا چاہیے کہ ہم نے اتنی نیکیاں کی بلکہ اپنی گذشتہ کوتاہیوں پر رونا چاہیے اور اپنے نیک اعمال کی قبولیت کے بارے میں فکرمند ہونا چاہیے۔ 

       ہمارے پاس رب کی دی ہوئی مہلت باقی ہے ابھی رمضان المبارک کے کچھ ایام باقی ہیں ابھی بھی پچھلی خطاؤں پر نادم ہوکر سچی توبہ کرلینی چاہیے، ہم اپنی کرتوتوں کو آنسوؤں سے دھل سکتے ہیں۔ 

    ع:نیکیاں کچھ نہ ہم کر سکے ہیں

آہ عصیاں میں ہی دن کٹے ہیں

ہائے غفلت میں تجھ کو گزارا

الوداع الوداع ماہ رمضان


  حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ "جب رمضان المبارک تشریف لاتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ متغیر ہوجاتا اور نماز کی کثرت کرتے اور خوب دعائیں مانگتے (شعب الایمان ج3ص310) 

   *فرقت رمضان پہ آنسو بہائیں*

       جب ہمارے معاشرے میں کسی کے یہاں بارات آتی ہے تو اس کے یہاں کتنی دھوم مچی ہوتی ہے ، طرح طرح کے انتظامات اور سجاوٹ ہوتی ہیں مگر جب بارات واپس جاتی ہے، اور بیٹی گھر والوں کو اور گھر والے بیٹی کو الوداع کہتے ہیں، اس وقت کا منظر قابل غور اور لمحہ فکریہ ہوتی ہے کہ باپ الگ غمگین ہے، ماں بہنیں الگ بےچینی میں زار و قطار رو رہی ہیں مضبوط دل کہلانے والے بھائیوں کی آنکھوں میں بھی آنسو ہے، حالانکہ بہت چھان بین کے بعد رشتہ طے پاتا ہے کہ لڑکی کی عیش و عشرت کے تقریباً سارے سامان دیکھی جاتی ہے مگر شادی ہوئی اور رخصتی پر سب آنسو بہا رہے ہوتے ہیں۔ 

        سامعین! جب بیٹی کی جدائی میں اس قدر غمگینی ہو سکتی ہے تو اس رمضان المبارک (جس میں ہم نے اس کا صحیح سے حق ادا نہیں کیا اور اگر اعمال کیے بھی تو قبولیت کا بھروسہ نہیں ) کی جدائی میں کیوں آنسو نہ بہائیں، کیوں غمگین نہ ہوں، یقیناً الوداعی رمضان بھی نہایت دلسوز ہے۔ 

      پھر رمضان المبارک کے بےشمار برکات اور فیضان کو ذہن میں رکھ اس کی جدائی پہ غور کریں تو نیک طبیعت انسانوں کی آنکھوں سے آنسو ایک معمولی چیز ہے بعض خدا کے بندے اکیلے میں اس قدر گڑگڑاتے ہیں جیسے رمضان نہیں ان کی جان جا رہی ہو۔

 

      فرقت رمضان میں اسی غم کی ترغیب آج سے تقریباً ساڑھے چھ سو سال قبل قاہرہ کے صوفی بزرگ حضرت سیدنا شیخ شعیب حریفیش رحمۃاللہ علیہ (وفات 810ھ) جو کہ مکہ مکرمہ میں مقیم تھے وہ فرماتے ہیں:اے لوگو تم ماہ رمضان کی جدائی میں غمگین ہوجاؤ کیونکہ یہ ایسا موسم ہے جس میں تم بارش رحمت اور دعاؤں کی قبولیت کی سعادت پاتے ہو۔ (الروض الفائق ص41)

تم پہ لاکھوں سلام آہ رمضان

الوداع آہ! اے رب کے مہمان

جاؤ حافظ خدا اب تمہارا

الوداع الوداع ماہ رمضان

*عید سعید*

میرے عزیزوں آج جمعۃالوداع ہے تو چند ہی روز بعد عید سعید بھی ہے اس لیے اس متعلق بھی کچھ گفتگو مناسب ہے۔

     عید کا دن خوشی و مسرت کا دن ہے مگر انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کی حیثیت سے اس کے لیے عید حقیقی معنوں میں وہی ہے جس دن اسے روحانی شادمانی حاصل ہوتی ہے یقینا جب اللہ کا بندہ اس کی رضا و خوشنودی اور اس سے قربت کے لئے جب مسلسل ایک مہینہ روزہ رکھتا ہے اور ان کی راتوں میں رب کی بارگاہ میں سربسجود ہوتا ہے ، سحر و افطار ، تراویح وتہجد اور جستجوئے شب قدر میں سرگرداں ہوکر آخری رمضان میں اپنی نیک کاموں اور عبادات کی قبولیت کے لیے رب کی بارگاہ میں آہ و زاری کرتا ہے تو اللہ رب العزت بہت خوش ہوتا ہے اور اسے عید سعید سے نوازتا ہے ۔ 

     حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے اس زمانے میں اہل مدینہ سال میں دو دن خوشیاں مناتے تھے( جس میں وہ کھیل کود اور دیگر خرافات کرتے تھے )آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "ماھذان الیومان؟ یہ کیسے دو دن ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ زمانہ جاہلیت سے ہم ان دنوں میں خوشی مناتے ہیں،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " ان اللہ قد ابدلکم بھما خیرا منھما یوم الاضحی ویوم الفطر "(سنن ابی داوُد ص170) یعنی بے شک اللہ تعالی نے ان دو عیدوں کو بدل دیا ایسے دو عیدوں سے جو اِن سے بہتر ہیں، عید الاضحی اور عید الفطر

*فضائل عید الفطر*

      برادران اسلام ہماری عیدیں من گھڑت اور بے جا نہیں اور نا ہی کسی انسان کی جانب سے بلکہ ہماری عیدیں پاکیزگی اور صفائی کا درس دیتی ہیں اور یہ عیدیں اللہ کی جانب سے ہیں اس لیے ہم پر واجب ہے کہ اس مسرت و شادمانی میں اپنے رب کا خوب شکریہ ادا کریں اور ہماری عیدیں برائیوں ، لہو لعب اور دیگر خرافات کا جامع بھی نہیں جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ ان میں پھنسے تھے یا آج کے کفار کی عیدیں جو سینکڑوں برائیوں کے ساتھ ہزاروں معاشی و سماجی نقصانات سے لبریز ہوتی ہیں۔ مگر ہماری عیدیں ہمیں اپنی حیثیت کے مطابق اخراجات کا حکم دیتی ہیں، اصل مقصد رب تعالی کی عبادات اور اس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنا ہوتی ہے۔ 

     جیسا کہ درج ذیل احادیث سے پتہ چلتا ہے۔ 

     حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اپنی عیدوں کو تکبیروں سے زینت بخشو(المعجم الاوسط ج3ص215) 

        حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ " جب عید الفطر کی مبارک رات تشریف لاتی ہے تو اسے" لیلۃ الجائزۃ" یعنی انعام کی رات سے پکارا جاتا ہے، جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ تعالی اپنے معصوم فرشتوں کو عام شہروں میں بھیجتا ہے، چنانچہ وہ فرشتے زمین پر تشریف لاکر سب گلیوں اور راہوں کے کناروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور اس طرح ندا دیتے ہیں اے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس رب کریم کی بارگاہ کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطا کرنے والا اور بڑے سے بڑا گناہ معاف فرمانے والا ہے پھر اللہ عزوجل اپنے بندوں سے یوں مخاطب ہوتا ہے اے میرے بندو مانگو کیا مانگتے ہو، میری عزت و جلال کی قسم آج کے روز اس مجلس (عید)میں اپنی آخرت کے بارے میں جو کچھ سوال کروگے وہ پورا کروں گا، اور جو کچھ دنیا کے بارے میں مانگو گے اس میں تمہاری بھلائی کی طرف نظر فرماؤں گا (یعنی اس معاملے میں وہ کروں گا جس میں تیری بہتری ہو) میری عزت کی قسم جب تم میرا لحاظ رکھو گے میں بھی تمہاری خطاؤں کی پردہ پوشی فرماتا رہوں گا میری عزت و جلال کی قسم میں تمہیں حد سے بڑھنے والوں کے ساتھ رسوا نہ کروں گا پس اپنے گھروں کی طرف مغفرت یافتہ لوٹ جاؤ ، تم نے مجھے راضی کر دیا اور میں بھی تم سے راضی ہوگیا۔ 

(الترغيب والترھیب ج2 ص60 بحوالہ فیضان رمضان 297) 

   یہ تو بہت مختصر اور جامع فضائل ہیں ورنہ منفردانہ طور پہ بےشمار فضائل وارد ہیں

*عید پہ کیا کریں؟*

اللہ تعالی کا فرمان عالیشان ہے"وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ "(الذاریات56) اور میں نے جن اور انسان اپنی بندگی کے لیے ہی بنائے (کنزالایمان) اس لیے ہمیں دنیا میں بھیجے جانے کے مقصد پہ عمل پیرا ہونا چاہیے یعنی اس دن بھی خوب عبادت کریں، اور اپنے رب کی قربت کا ذریعہ تلاش کریں، وہیں عید الفطر ہو یا عید الاضحی اسلام میں ہر خوشی کے موقع پر غریبوں، یتیموں، بیواؤں اور بےسہاروں کا خوب خیال رکھا گیا، مثلاً عید الفطر پہ صدقہ فطر، زکوٰۃ اور دیگر صدقات ان حاجت مندوں کے لیے ہی خاص طور سے ہے جبکہ عید الاضحی پہ قربانی اور اس کے گوشت کے ذریعے بالخصوص ان حاجت مندوں کو اور بالعموم جملہ مسلمین کی ضیافت کا حکم دیا گیا ، اور یہ مذہب اسلام کا خاصہ ہے،

         اس لیے ایسے موقعے پر اپنے غریب اور یتیم پڑوسیوں کو ہرگز نہ بھولیں ان کی مکمل امداد کریں۔ 

      پھر موجودہ دور میں مدارس اسلامیہ بھی تعاون کے حقدار ہیں جن میں آج بھی قال اللہ و قال رسول اللہ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ ایسے مدارس آپ کے احسان و بھلائی کے منتظر ہوتے ہیں اس لیے صدقہ واجبہ ادا بھی کردیں تو صدقہ نافلہ مدارس کو ضرور دیں، باقی عید کے دن اپنے اہل وعیال اور دیگر قرابت داروں سے احسان و بھلائی سے پیش آنا ، ٹوٹے تعلقات کو جوڑنا ، عید کے دن حجامت بنوانا ، ناخن تراشنا، غسل کرنا، مسواک کرنا،اچھے کپڑے پہننا (نیا ہونا ضروری نہیں ، صاف ہونا چاہیے) خوشبو لگانا، نماز فجر محلے کی مسجد میں ادا کرنا، عیدگاہ جلدی آنا، نماز عید کے لیے ایک راستے سے آنا دوسرے راستے سے واپس جانا، نماز عید مسجد میں ہو یا عیدگاہ میں وہاں تک پیدل جانا (گاڑی سے بھی جانا جائز ہے) ،ایک دوسرے کو مبارک باد دینا ، ان سے خوش اخلاقی سے پیش آنا ، نماز عید کے لیے جانے سے قبل کچھ کھجوریں کھا لینا بھی سنت ہے( اگر وہ نہ ہو تو دوسری شیرینی بھی کھا سکتے ہیں) حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں "کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم لایخرج یوم الفطر حتی یطعم ولا یطعم یوم الاضحی حتی یصلی (ترمذی ص 142) ترجمہ: عید الفطر کے دن جب تک حضور نبی رحمت ﷺ کچھ کھا نہ لیتے عید گاہ کو تشریف نہ لے جاتے اور عید الاضحی کے دن اس وقت تک کچھ نہ کھاتے جب تک نماز عید ادا نہ فرماتے۔

       سامعین محترم! جب شوال المکرم کا چاند نظر آ جائے یا دیگر ذرائع ابلاغ سے یقین ہوجائے کہ کل عید ہے تو یاد رکھیں، اس رات کو "لیلۃ الجائزۃ" یعنی انعام کی رات کہا جاتا ہے اس لیے اس رات رب تعالیٰ کی بارگاہ میں خوب عبادت،دعائیں اور توبہ و استغفار کریں اور رمضان میں کیے تمام نیکیوں بلکہ زندگی بھر کے جملہ نیک اعمال کی قبولیت کی دعائیں کریں اور زندگی بھر کی گناہوں سے توبہ کریں،

حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا فرمان ہے جس نے عید کی رات طلب ثواب کے لئے قیام کیا ، تو اس دن اس کا دل نہیں مرے گا جس دن( لوگوں)کے) دل مر جائیں گے۔ 

(ابن ماجہ ج2 ص 365، حدیث 1782) 

      چونکہ عید الفطر کی صبح بھی فرشتے معافی کا اعلان عام کرتے ہیں اور رب تعالیٰ کی رحمتیں جوش میں ہوتی ہیں اس لیے صبح تکبیر و تسبیح پڑھتے ہوئے مسجد جائیں اور نماز عید کے بعد بھی نیکیاں کریں بالخصوص حاجت مندوں کی حاجت روائی، یتیموں پہ شفقت، بیواؤں کی امداد ضرور کریں۔

       یوم العید بےشمار نعمتوں سے پر ہوتا ہے اس لیے اس دن ہرگز  یہ خیال نہ لائیں کہ اب ہم قید رمضان سے آزاد ہو گیے، اور پھر صغائر وکبائر میں تمیز کیے بغیر فحش گناہوں میں یوں مشغول ہوجائے کہ وہ تعلیمات اسلام کے شفاف دامن پہ بدنما داغ ہوجائے۔ 

      غور کا مقام ہے کہ رمضان میں شیطان قید کیے جاتے ہیں اور بعد رمضان شیطان کی رہائی ہوتی ہے، اس لیے اپنے آپ کو گناہ کرنے کے لئے آزاد نہ سمجھیں۔ 

        جناب وہب بن منبہ رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ شیطان ہر عید پر نوحہ و زاری کرتا ہے اور تمام شیاطین اس کے ارد گرد جمع ہو کر پوچھتے ہیں" اے آقا! آپ کیوں غضبناک اور اداس ہیں؟ وہ کہتا ہے الله تعالٰی نے آج کے دن امت محمد ﷺ کو بخش دیا ، لہذا تم انہیں لذتوں اور خواہشات نفسانی میں مشغول کرو! (مکاشفۃ القلوب ص651) 


       معزز سامعین! عید کے انعامات اور بخششیں شیطان ملعون پر بہت گراں گزرتا ہے ۔اور مسلسل ایک مہینے کی قید کے بعد نہایت بپھرا ہوا ہوتا ہے، وہ ہم سے  زیادہ سے زیادہ گناہ کرا کر ماہ رمضان کی بھرپائی کرنا چاہتا ہے، اور پھر دل میں طرح طرح کے نفسانی خواہشات سے بھرپور ارمان جگاتا ہے، بالخصوص اس دن اس کا ہتھیار غیر محرم لڑکیاں اور فضول خرچی کے اور حرام خرچی کے لیے دولت ہوتے ہیں، اس لیے خوب سوچ سمجھ کر عید گزاریں شیطان کے جھانسہ میں نہ آئیں۔

*عید کے دن شیطانی تحفے*

رمضان کے اواخر ہی سے شہروں میں اعلان اور پوسٹر لگائے جاتے ہیں عید کا "اسپیشل تحفہ" فلاں جگہ کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد ہوگا، فلاں جگہ فحاشی کے  میلے لگیں گے، فلاں تھیٹر میں فلانی پکچر لگے گی، فلاں ڈانس کلب اور ڈانس بار وغیرہ کی بکنگ جاری ہے عید کے موقع پر اتنی فیصد چھوٹ ہوگی۔ اور جیسے ہی رمضان ختم ہو کر عید کے دن آئے، مسجدیں ویران اور فلم ہال ہجوم سے کھچا کھچ، میلے ، کرکٹ، ڈانس کلب، شراب خانہ وغیرہ مسلمانوں کے نوجوان افراد سے پُر ہوجاتے ہیں، عید کی نماز پڑھیں نہ پڑھیں غیر محرموں کے ساتھ پارکوں میں گل چھرے اڑا رہے ہوتے ہیں۔ دیہات اگر چہ ان سارے خرافات میں شریک نہیں مگر محلے کی عشق باز اور شرابی اور نشیڑی محلے سے غائب اور فلم و سیریل کے عادی گھر کی ٹیلیویژنوں اور موبائل فون میں مشغول ہوجاتے ہیں۔

       دوستوں ایسے بدکرداروں کے لیے عید نہیں وعید ہے، کہاں اتنے انعامات اور کہاں ہمارا معاشرہ، عید کی نعمتوں سے مالا مال ہونے کے بجائے ہمارا معاشرہ شیطانی تحفوں کے لوٹنے میں مشغول ہوجاتا ہے، آپ نے غور کیا ہے کہ ہم سے قبل بھی کچھ ایسی شیطانی خصلتوں کے حامل اشخاص تھے مگر ان کے ہم عصر چند ہی بچے ہیں پتہ نہیں وہ قبر کے کس عذاب میں گرفتار ہوں گے اگر ہم آج نہ سدھرے تو کل ہمارا انجام کہیں اس سے بدتر نہ ہو۔

*فیشن یا عریانیت*

عید کے دن اگر توفیق ہو تو اچھے اور صاف کپڑے پہننا سنت ہے(نیا ہونا ضروری نہیں) مگر افسوس آج نئے کپڑوں کو اس قدر ضروری سمجھا جاتا ہے کہ کتنی گھر اسی بناء پہ قرض میں غرق ہو جاتے ہیں، اور کتنے گھر کپڑوں کی لڑائی میں جہنم بن جاتے ہیں پھر ان میں فیشنیبل کپڑوں، اور ڈیزائن کی طلب خواہ اس سے ستر پوشی ہو یا بے حیائی ، معاشرہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ 

       دوستو اگر استطاعت اور ضرورت ہو تو ہی کپڑے خریدیں، ورنہ بلا ضرورت یا استطاعت سے زیادہ کے کپڑے اس وبائی دور میں قرض لیکر ہرگز نہ خریدیں ورنہ افلاس مقدر ہو گا اور جب بھی کپڑے خریدیں اسلامی خریدیں کم از کم ستر ڈھکتے ہوں، ایسے کپڑے نہ خریدیں جیسا کہ آج کل فیشن کے نام پر عریانیت کو عروج دیا جا رہا ہے، ورنہ کپڑا پہنیں نہ پہنیں برابر ہے۔

*عید اور سیلفی*

تصویر کشی اسلام میں ناجائز کام ہے مگر ہم اپنے آپ کو دیکھیں کہ اس پر کہاں تک عمل پیرا ہیں، ماہ رمضان میں پہلا روزہ رکھتے ہوئے سیلفی، پھر پہلا جمعہ کی سیلفی، یا تراویح کی سیلفی،  پورے رمضان میں کوئی بھی کام کرے سیلفی، چاہے غیر محرم ہو یا محرم ہو اس کے ساتھ بھی سیلفی، اسلام ہمیں اخلاص کا درس دیتا ہے مگر آج ہم نام و نمود اور دکھاوے کا اس قدر دلدادہ ہو گئے کہ آج ہمارا معاشرہ اخلاص سے کوسوں دور ہے۔ 

       یہ دیکھاوا رمضان سے ہوتے ہوئے عید تک پہنچتا ہے اور یہاں بے لگام ہو جاتا ہے، کوئی پارک میں ہے، تو کوئی آوارہ گردوں کے ساتھ عیاشیاں کرتا ہے اور ان ساری چیزوں کی تصویر کشی ہوتی ہے جہاں خود تصویر کشی گناہ ہے وہیں اس میں کا منظر گناہوں کو عروج بخشتا ہے۔ 

      بعض بھولے بھالے لوگ یا جو بھولا بننے کی ڈھونگ رچتے ہیں وہ صرف نیک کاموں پہ سیلفی یا تصویر سوشل میڈیا یا اخبارات میں شائع کراتے ہیں مثلاً غریب کو ایک چھوٹا سا پیکٹ تھما دیتے ہیں اور اپنی تصویر بہت بڑی نکلواتے ہیں۔ 

        ایک تو آپ کا نیک کام ریاکاری میں شمار ہوگا، دوسرا تصویر کشی گناہ، تیسرا غریب کی مدد کم اس کی بےعزتی کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ 

       سامعین! فرض عبادات کے علاوہ جتنی نوافل ہیں حتی الامکان پوشیدہ ہی رکھے جائیں ورنہ کہیں ریاکاری کی بنا پر آپ کی عبادتیں اکارت نہ چلی جائیں۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کیا فائدہ ایسی تعلیم کا جو کافر کردے

*حافظ ملت ایک انقلابی شخصیت*

*غوث اعظم عبدالقادر* جیلانی رحمۃاللہ علیہ *کا علمی مقام* ⁦