پردہ کی اہمیت و افادیت

 *پردہ کی اہمیت و افادیت*


الحمدللہ رب العلمین والعاقبۃ للمتقین والصلوۃ علی رسولہ الکریم وعلی آلہ واصحابہ اجمعین اما بعد فاعوذ بالله من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحیم

وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰى جُیُوْبِهِنَّ۪-وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآىٕهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآىٕهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَآىٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْهَرُوْا عَلٰى عَوْرٰتِ النِّسَآءِ۪-وَ لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِهِنَّؕ-وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ

صدق الله العظيم

سب مل کر اپنے غمخوار آقا کی بارگاہ اقدس میں درود پاک کا ہدیہ نچھاور کریں


اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا وَمَوْلانَامُحَمَّدٍمَّعْدَنِ 

 الْجُوْدِ وَالْکَرَمْ وَاِبْنِہِ الْکَرِیْمِ وَاٰلِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ


*حجاب ، دشمنانِ اسلام کا کفن*


پردے پہ عمل ، دافعِ اَشرار و فِتَن ہے

کردار کی آنکھوں میں یہ غیرت کی کرن ہے


پردے کو فقط عزتِ نِسواں نہ سمجھیے

یہ دشمنِ اسلام کے خوابوں کا کفن ہے


ناپاک ہَوَس کے لیے بنتا ہے رکاوٹ

بدکاروں کو اِس واسطے پردے سے جلن ہے


اے پردہ نشیں دخترِ دیں ! تجھ کو سلامی

یہ رنگِ حیا ، تیشۂ الحاد شکن ہے


پردے کے لیے تونے جو آواز اٹھائی

باطل کے سیہ خانوں میں یہ حق کی کرن ہے


ملت ہے ترے جرأتِ اظہار پہ نازاں

گفتار کے اِس رنگ سے اعجازِ سخن ہے


اے کاش ہر اک طبقۂ نِسواں کو ہو معلوم

یہ شرم و حجاب اور حیا ، زیورِ زَن ہے


ہر چشمِ حیادار کو حاصل ہے یہ اعزاز

راضی ہیں نبی ، فضلِ خدا سایہ فگن ہے


غیروں کی جفا سہہ لی ، کسی طَور فریدی !

اپنوں کی خموشی پہ بہت رنج و محن ہے

از :فریدی صدیقی مصباحی مسقط عمان

اسلام میں پردے کی بہت اہمیت ہے کیونکہ پردہ حیا کا ضامن ہے اور حیا اور پاکیزگی کو الله و پسند فرماتے ہیں، پردہ جہاں الله تعالٰی اور اس کے رسول ﷺ کی حکم کی تعمیل ہے وہیں باحیا اور باپردہ عورتیں کسی بھی معاشرہ میں رہ کر پاکدامنی کے ساتھ زندگی گزار سکتی ہیں، کیونکہ مردوں پہ عشق و محبت کا جنون جن چند وجوہات سے سوار ہوتا ہے ان میں ایک اہم ترین وجہ خوبصورتی اور بناؤ سنگار بھی ہے، اور جب عورتیں پردے میں ہوں گی اپنی خوبصورتی اور بناؤ سنگار کو چھپا کر رکھے گی تو مردوں کی ہوس بھری نظروں سے محفوظ رہے گی اور مرد بھی خواہشات نفسانی کے فتنے کا شکار نہ ہوں گے، اور پردہ ہی عورت کو شیطان اور شیطان صفت انسان کے شر سے محفوظ بھی رکھتا ہے، ہمارے عروج کے دور میں یعنی زمانہ رسول ﷺ اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور سلاطین اسلامیہ کے زمانے میں نہ اس قدر برائیاں تھی نہ ہی اس خیال کے لوگ یہ ہم اس لیے بتا رہے ہیں کیونکہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ آپ کی تجویز میں برائیوں کی روک تھام میں کامیابی اور ناکامی دونوں کے امکان ہیں اس وقت انہیں اپنے عروج کے ادوار کا منہ بولتا ثبوت پڑھوایا جا سکتا ہے، اور شاید اسی لیے اللہ کے رسول ﷺ نے اسے ایمان کا حصہ بتایا ہے۔ 

مگر جب ہم پچھلے ڈھائی سو سال کے ماضی کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ مغربی تہذیب و تمدن نے باضابطہ سازشیں رچ کر اسلام اور مسلمانوں کو بھرپور کمزور کرنے کی کوشش کی اور اپنے مقصد میں بہت حد تک کامیاب بھی ہوئی، جہاں مسلمانوں کی تجارت، ایجادات، ہتھیار وغیرہ کے ذریعے ترقی اور طاقت کی راہ میں رکاوٹ بنی (مسلم ممالک پر حملے اور قبضے کے ذریعے) وہیں مغرب نے اسلام اور مسلمانوں کو دقیانوسی اور قدیم خیال بتاکر اسلامی احکام کو فریڈم کا مخالف بتا کر اسلامی تہذیب کا گلا گھونٹنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی انہیں میں سے ایک حکم اسلام پردہ کا بھی ہے، جسے اہل مغرب اور ان کے زرخرید پروردہ نے آزادی نسواں کا مخالف بتا کر جگہ جگہ پردہ اور حجاب پر پابندی عائد کی۔ 

اور ہمارا معاشرہ یہ تو دن بدن مغرب کی جال میں پھنستا جا رہا ہے اسے احساس بھی نہیں کہ ہماری روایات اور اقدار کو مٹا کر خود ہمیں بھی صفحہ ہستی سے مکمل خاتمہ کرنے کا پلان ہے۔ 

اور یہ تعلیمات اسلام سے دوری دوری کی وجہ سے ہے، جس کے نتائج بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ جگہ جگہ چھیڑ چھاڑ، زناکاری وغیرہ کا سرے عام ہورہے ہیں، کچھ کمی ہماری بھی ہے وہ ہے اسلامی تعلیمات اور لباس کو نہ اپنانا۔ 

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

ایت کریمہ کا ترجمہ "اور مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنی زینت نہ دکھائیں مگر جتنا (بدن کاحصہ) خود ہی ظاہر ہے اور وہ اپنے دوپٹے اپنے گریبانوں پر ڈالے رکھیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ یا شوہروں کے باپ یا اپنے بیٹوں یا شوہروں کے بیٹے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں یا اپنی (مسلمان) عورتوں یا اپنی کنیزوں پر جو ان کی ملکیت ہوں یامردوں میں سے وہ نوکر جو شہوت والے نہ ہوں یا وہ بچے جنہیں عورتوں کی شرم کی چیزوں کی خبر نہیں اور زمین پر اپنے پاؤں اس لئے زور سے نہ ماریں کہ ان کی اس زینت کا پتہ چل جائے جو انہوں نے چھپائی ہوئی ہے اور اے مسلمانو! تم سب اللہ کی طرف توبہ کرو اس امید پر کہ تم فلاح پاؤ۔ (النور 31) 

دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے

وَ الْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَآءِ الّٰتِیْ لَا یَرْجُوْنَ نِكَاحًا فَلَیْسَ عَلَیْهِنَّ جُنَاحٌ اَنْ یَّضَعْنَ ثِیَابَهُنَّ غَیْرَ مُتَبَرِّجٰتٍۭ بِزِیْنَةٍؕ-وَ اَنْ یَّسْتَعْفِفْنَ خَیْرٌ لَّهُنَّؕ-وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(النور60)

ترجمہ

اور بوڑھی خانہ نشین عورتیں جنہیں نکاح کی آرزو نہیں ان پر کچھ گناہ نہیں کہ اپنے بالائی کپڑے اُتار رکھیں جب کہ سنگھار نہ چمکائیں اور اس سے بچنا ان کے لیے اور بہتر ہے اور اللہ سُنتا جانتا ہے

آیت کریمہ سے دلالتہً یہ بات معلوم ہورہی ہے کہ اگر خواتین کو ضرورت کے وقت باہر نکلنا پڑے تو وہ لمبی چاریں (یا برقعہ وغیرہ) پہن کر باہر نکلیں۔ اس سے پردئہ شرعی کے حکم کی تعمیل بھی ہوجائے گی اور بہت سہولت کے ساتھ شریر لوگوں سے حفاظت بھی، جلابیب جلباب کی جمع ہے جو لمبی چادر کو کہا جاتا ہے، جس میں عورت سر سے پیر تک مستور ہوجائے، جس کی ہیئت کے متعلق حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ وہ چادر ہے جو دوپٹے کے اوپر اوڑھی جاتی ہے۔ (ابن کثیر)

حضرت عبداللہ ابن عباسؓ نے اس کی ہیئت یہ بیان فرمائی: اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی عورتوں کو حکم دیا کہ جب وہ کسی ضرورت سے اپنے گھروں سے نکلیں تو اپنے سروں کے اوپر سے چادر لٹکاکر چہروں کو چھپالیں اور آنکھ (راستے میں دیکھنے کے لیے) کھلی رکھیں۔ (ابن کثیر)

*پردے کا حکم احادیث کی روشنی میں*

پردے کا حکم جہاں متعدد آیت کریمہ اور ان کی تفاسیر بتاتی ہیں وہیں بےشمار احادیث بھی پردے کی اہمیت و ضرورت ان کے بہترین علل و وجوہ کے ساتھ وارد ہیں۔ 

حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا عورت پردہ میں رہنے کی چیز ہے کیوں کہ جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے بہکانے کے لئے موقع تلاش کرتا ہے‘‘ جامع ترمذی،جلد نمبر اول ، حدیث نمبر 1181

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ عورت کا کمرہ میں نماز پڑھنا گھر (آنگن) میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور (اندرونی) کوٹھڑی میں نماز پڑھنا کمرہ میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے‘‘ سنن ابو دائود، جلد نمبر اول، حدیث نمبر 567۔

’’حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں رسول کریمؐ کے پاس تھی اور آپؐ کے پاس حضرت میمونہؓ بھی تھیں۔ سامنے سے حضرت عبداللہ بن ام مکتوم (جو نابینا تھے) تشریف لائے اور یہ واقعہ پردہ کا حکم دیئے جانے سے بعد کا ہے، حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ ان سے تم دونوں پردہ کرو، ہم نے عرض کیا یارسول اللہؐ کیا یہ نابینا نہیںہیں؟حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ کیا تم دونوں بھی اندھی ہو انہیں نہیں دیکھتی ہو‘‘ سنن ابو دائود، جلد نمبر سوم، حدیث نمبر 720۔

’حضرت ابو ذر ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ جس نے اجازت ملنے سے پہلے پردہ اٹھا کر کسی کے گھر میں نظر ڈالی گویا کہ اس نے گھر کی چھپی ہوئی چیز دیکھ لی اور اس نے ایسا کام کیا جو اس کے لئے حلال نہیں تھا ۔ پھر اگر اندر جھانکتے وقت کوئی اس کی آنکھیں پھوڑ دیتا تو میں اس پر کچھ نہ کہتا ( یعنی بدلہ نہ دلاتا) اور اگر کوئی شخص کسی ایسے دروازے کے سامنے سے گزرا جس پر پردہ نہیں تھا اور وہ بند بھی نہیں تھا پھر اس کی گھر والوں پر نظر پڑ گئی تو اس میں اس کی کوئی غلطی نہیں بلکہ گھر والوں کی غلطی ہے‘‘ جامع تر مذی، جلد دوم، حدیث نمبر 618،

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: قافلے ہمارے پاس سے گزرتے تھے اور ہم بحالت احرام نبی اکرمﷺ کے ساتھ سفر حج میں تھے تو جب قافلے کے لوگ ہمارے سامنے آتے تو ہم اپنی چادر سرسے چہرے پر لٹکالیتے تھے اور جب قافلے آگے بڑھ جاتے تو ہم اپنے چہرے کھول لیتے تھے۔ (سنن ابوداؤد254ج 1، ابن ماجہ 210)

پیغمبر اکرم(ص) ایک خاتون کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’یَا حَوْلَاءُ لَا تُبْدِی زِینَتَکِ لِغَیْرِ زَوْجِکِ یَا حَوْلَاءُ لَا یَحِلُّ لِامْرَأَةٍ أَنْ تُظْهِرَ مِعْصَمَهَا وَ قَدَمَهَا لِرَجُلٍ غَیْرِ بَعْلِهَا وَ إِذَا فَعَلَتْ ذَلِکَ لَمْ تَزَلْ فِی لَعْنَةِ اللَّهِ وَ سَخَطِهِ وَ غَضِبَ اللَّهُ عَلَیْهَا وَ لَعَنَتْهَا مَلَائِکَةُ اللَّهِ وَ أَعَدَّ لَهَا عَذَاباً أَلِیماً‘‘۔(عیون أخبار الرضا(علیه السلام)، ج 2، ص 11)

اے حوالاء! اپنے بناؤ سنگار کو اپنے شوہر کے علاوہ کسی غیر کے سامنے ظاہر مت کرنا،اے حولاء! کسی بھی خاتون کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی خوبصورتی اور اپنے پیروں کو اپنے شوہر کے علاوہ کسی غیر کے لئے ظاہر کرے اور اگر اس نے ایسا کیا تو وہ ہمیشہ اللہ تعالٰی کی لعنت و غضب میں رہے گی اور اس پر اللہ اور اس کے فرشتے لعنت کریں گے اور اللہ قیامت میں اسے دردناک عذاب میں مبتلاء کرے گا۔

ان احادیث سے صاف پتہ چلتا ہے کہ پردہ کرنے کی اہمیت و ضرورت کیا ہے! 

اور بے پردگی میں عذاب کتنا ہے!

*بے پردگی کے وجوہات*

ابتداءً اسلامی ممالک میں بے پردگی انگریزی تعلیم کے ذریعے یہود و نصاریٰ نے اسلامی خواتین کے قلوب و اذہان میں آزادی کا خیال ڈالا حالانکہ آزادی کے نام پر عورتوں کی تحفظ پہ حملہ اور پاکدامنی کی داغداری تھی جسے تقریباً اکثر مسلمانوں نے بھانپ لیا سوائے چند گنے چنے جو مغربی تہذیب و تمدن کے دلدادہ اور مغربی تعلیم سے متاثر نفس پرست تھے، مگر ان کی تعلیم کا اثر بڑی سست رفتاری سے چل رہا تھا، پھر انہوں نے دوسرا طریقہ اپنایا یعنی مردوں کو بےحیائی کے ذریعے نفس کا غلام بنایا اور عورتوں کو آزادی کی لالچ دی، تو اسلامی ماحول تھوڑا اور بگڑنے میں تیز ہوا پھر ویڈیو کا دور آیا اب ساری من گھڑت قصے کہانیاں فلم بن گئی اور سارے ناول سیریئل مگر اس میں بھی ڈائریکٹر بےحیائی اور عریانیت نہیں دکھائی گئی بلکہ بہت دیر سے اثر کرنے والے زہر کی طرح تھوڑی بےحیائی اور بے غیرتی پھر بتدریج مہینوں سالوں اور سیکڑوں سال میں عریانیت اور بےحیائی اس قدر عام ہوئی کہ اللہ کی پناہ، اب تو ہر ہاتھ میں موبائل موجود ہے جس میں وہ سارے گناہ کے سامان ہیں جس کے لیے پہلے کتنی کوششیں اور جتن کرنے پڑتے تھے، اب اتنی دہائیوں کے مسلمانوں کو احساس بھی ہوتا ہے کہ ہم مغرب کی جال میں پھنس چکے ہیں مگر عادت نے انہیں بےحیائی اور بے غیرتی پر مجبور کر دیا۔ 

ویڈیو نے بےحیائی کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا کہ صدیوں میں ہونے والا کام اور تجربہ محض دو گھنٹے میں سمیٹ دیا، اس ویڈیو اور آلہ ویڈیو کے ذریعے وہ اپنے بچوں کو تو اعلیٰ تعلیم اور ٹیکنالوجی میں مہارت دیتے ہیں اور عام باشندوں کے لیے تفریح، بےحیائی، اور آپسی رنجش کا سامان مہیا کراتے ہیں۔ 

اگر اسے بگاڑ اور فساد کی تربیت گاہ کہیں تو مبنی بر حقیقت ہوگا، کیونکہ تقریباً %95 فیصد مسلمان اس جال کے شکار ہیں۔ اس کا نتیجہ ہماری بربادی دیکھ ہی رہے ہیں۔ 


*ایک غلط فہمی کا ازالہ*

بعض عورتیں اپنے گھر کے افراد اور رشتہ داروں سے پردہ کا خیال بھی نہیں کرتی حالانکہ ان سے پردہ واجب ہوتا ہے، اور مرد بھی ان سے گھل مل کر رہتے ہیں جبکہ ان پر بھی احتیاط لازم ہوتا ہے، مثلاً دیور بھابھی، بہنوئی سالی،چچی بھتیجا، جیٹھ، نندوئی وغیرہ۔ 

بعض جاہل تو ان سے ہنسی مذاق کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں جو لائق افسوس ہے۔ 

حضرت عقبہ بن عامر رض سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺنے ارشاد فرمایا کہ نامحرم عورتوں کے پاس مت جایا کرو۔ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول الله! عورت کے سسرال کے مردوں کے متعلق کیا حکم ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سسرال کے رشتہ دار تو موت ہیں۔

اس حدیث میں جو سب سے زیادہ قابل توجہ چیز ہے وہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے عورت کے سسرال کے مردوں کو موت سے تشبیہ دی ہے،

جس کا مطلب یہ ہے کہ عورت اپنے جیٹھ ، دیور اور نندوئی وغیرہ سے اور اسی طرح سسرال کے نا محرم مردوں سے گہرا پردہ کرے۔ یوں تو ہر نامحرم

سے پردہ کرنا ضروری ہے، لیکن جیٹھ، دیور اور ان کے دوسرے رشتہ داروں کے سامنے آنے سے اس طرح بچنا ضروری ہے جیسے لوگ موت سے بچنے

کو ضروری خیال کرتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ان رشتہ داروں کے ساتھ بہت زیادہ اختلاط کیا جاتا ہے اور ہنسی دل لگی تک نوبتیں آجاتی ہیں اور شوہر یہ سمجھتا ہے کہ یہ تو اپنے لوگ ہیں، ان سے کیا روک ٹوک کی جائے، لیکن جب دونوں طرف سے جذبات ہوں اور کثرت سے آنا جانا ہو اور شوہر گھر سے باہر ہو تو رفتہ رفتہ خطرہ کی صورت بن جاتی ہے، ان ہی حالات کے پیش نظر آنحضرت ﷺ نے سسرال کے مردوں سے بچے رہنے اور سخت پردہ کرنے کی تاکید فرمادی ہے اور ان لوگوں کو موت کے ساتھ تشبیہ دے کر یہ بتا دیا ہے کہ ان لوگوں سے ایسے دور رہو جیسے موت سے دور رہتے ہو۔

ہر قسم کے نامحرموں سے پردہ ضروری ہے :

بعض عورتیں اپنے دیور کی چھوٹی عمر میں پرورش کرتی ہیں اور جب وہ بڑا ہو جاتا ہے تو اس سے پردہ کرنے کو برا محسوس کرتی ہیں اور عیب سمجھتی ہیں اور

اگرمسئلہ بتایا جاتا ہے کہ یہ نامحرم ہے اس سے پردہ ضروری ہے تو کہتی ہیں کہ اس کو ہم نے بچپن ہی سے پالا ہے، رات دن ساتھ رہا ہے، اس سے کیا پردہ ہے؟ یہ بہت بڑے گناہ کی بات ہے کہ آدمی گناہ بھی کرے اور حکم شریعت کے مقابلہ میں اپنی باتوں پر اڑی رہے۔ یوں تو الله کے رسول ﷺ نے دیور کو

موت کے ساتھ تشبیہ دی ہے اور جہالت کی وجہ سے عورتیں ان کے سامنے آنے کو ضروری سمجھتی ہیں، یہ ہے مسلمان عورتوں کی حقیقت۔

نوٹ۔پردہ حق شرع ہے، شوہر کا حق نہیں، بہت سی عورتیں سمجھتی ہیں کہ شوہر جس سے پردہ کرائے اس سے پردہ کیا جائے اور اسی طرح شوہر جس

کے سامنے آنے کو کہے اس کے سامنے آجائیں، یہ سوچ اور سمجھ سراسر غلط ہے ،شوہر یا کسی دوسرے شخص کے کہنے سے گناہ کرنے کی اجازت نہیں ہوتی، خوب سمجھنا چاہیے۔

عموماً دیور بھابھی، بہنوئی سالی ہنسی مذاق کے ساتھ تنہائی میں بھی رہتے ہیں تو ان کے لیے بھی سنیں!!!

حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کوئی مرد جب کسی عورت کے ساتھ(بیوی کے علاوہ) تنہائی میں ہوتا ہے تو وہاں ان دونوں کے علاوہ تیسرا شیطان ضرور موجود ہوتا ہے ۔ ( ترمذی 2165)

*بے پردگی کا انجام*

جو عورتیں پردہ نہیں کرتی اور اعلانیہ پردے کی مخالفت کرتی ہیں ان کے بارے میں احادیث میں بڑی وعید آئی ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا صنفان من اہل النار، نساء کاسیات عاریات ممیلات مائلات لایدخلن الجنۃ ولا یجدن ریحھا وان ریحھا توجد من مسیرۃ کذا وکذا۔ 

ترجمہ، دو گروہ دوزخیوں میں سے ہے، ایک عورتیں جو بظاہر کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور در حقیقت ننگی ہیں (یعنی ایسے کپڑے پہنتے ہیں جس ان کا پردہ نہیں ہوتا اور بدن دکھتا ہے، اور جو میل کرنے والیاں ہیں (خود مردوں کی طرف رغبت کرنے والیاں یا دوپٹہ سر پر نہ ڈالنے والیاں) ، مائل کرنے والیاں مطلب مٹک چال چلنے والیاں (تاکہ اجنبیوں کو فریفتہ اور اپنے فتنے میں مبتلا کر سکیں) یہ جنت میں داخل نہیں ہوں گی اور نہ کی بو پائیں گی حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی اتنی دوری سے پائی جاتی ہے (مطلب جنت کی خوشبو بہت دور سے پائی جاتی ہے پھر بھی ایسی صفات کی عورتیں خوشبو نہیں پائیں گی،(اسلام میں پردے کی اہمیت، میثم قادری ص 14۔613)

       پھر حدیث معراج میں بھی وضاحت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی عورتوں کے پاس سے گزرے جن پر سخت عذاب ہو رہا تھا جن ایک اپنے سر کے بالوں کے بل لٹکائی گئی تھی، تو کسی کو چہرے کچلے جا رہے تھے ، کسی کے ہونٹوں کو آگ کی قینچی سے کاٹا جا رہا تھا، جنہیں سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور یہ تو عذاب کا ایک نمونہ ہے ورنہ اللہ نہ کرے کہیں اس سے بھی زیادہ اور خطرناک ہوئے تو کیا ہوگا، اور یہ قیامت سے قبل قبر کا حال ہے پھر حشر اور اس میں حساب اور بعد حساب کا کیا حال ہوگا۔ 

اسی طرح ایک نوجوان ایک مجلس میں حلفیہ بیان دے رہا تھا کہ میرے ایک عزیز کی جوان بیٹی فوت ہو گئی، تدفین سے فارغ ہو کر لوٹے تو اس کے والد کو یاد آیا کہ میرا ایک ہینڈ بیگ جس میں اہم کاغذات تھے وہ قبر ہی میں لڑکی کے ساتھ دفن ہو گیا ہے، لہذا ہم نے نہایت غور و خوض کے بعد بیگ نکالنے کے لیے دوبارہ قبر کھودی، ابھی ہم نے تھوڑا ہی کھولا تھا کہ خوف دہشت کے مارے چیخیں نکل گئی، کیونکہ وہ دوشیزہ جسے ہم نے ابھی چار گھنٹے پہلے ٹھیک ٹھاک صاف ستھرے کفن میں لپیٹ کر دفن کیا تھا وہ کفن پھاڑ کر اٹھ بیٹھی تھی وہ بھی کمان کی طرح ٹیڑھی آہ!! اس کے بالوں سے اسکے پیروں کو باندھ دیا گیا تھا اور چھوٹے چھوٹے کئی خوفناک جانور اس کو لپٹے ہوئے تھے یہ دہشت ناک منظر دیکھ کر ہماری ہمت نہ ہوئی کہ ہینڈ بیگ نکالیں اور جیسے تیسے مٹی ڈال کر واپس لوٹے، گھر والوں سے اس کے متعلق پوچھا کہ آخر اس نوجوان لڑکی کا کیا جرم تھا کہ اتنے خطرناک عذاب میں گرفتار تھی ، گھر والوں نے بتایا کہ کوئی خاص جرم تو نہیں مگر ہمیشہ بےپردگی برتتی تھی، ابھی چند دن پہلے رشتہ دار کی شادی میں جانے کے لیے فیشن میں بال کٹوا دیئے تھے۔ (اسلام میں پردے کی اہمیت، میثم قادری ص 255)

ان واقعات سے ہماری بچیوں کو سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے، اور اپنے نفس کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے ورنہ انجام سب کے لیے برابر ہوگا اس کے کرتوت کے اعتبار سے

*عورتوں کا مزار وغیرہ پر جانا*

اکثر علمائے متقدمین نے نماز کے لیے بھی عورتوں کو نکلنے کو مکروہ قرار دیا ہے، پھر قبرستان اور مزار پر جانے کا کیا حال ہوگا، 

اس متعلق ایک فقہ کے امام سے کی رائے بھی سنیں ’’قوله: "و قيل تحرم على النساء": و سئل القاضي عن جواز خروج النساء إلى المقابر فقال: لاتسأل عن الجواز و الفساد في مثل هذا و إنما تسأل عن مقدار ما يلحقها من اللعن فيه و اعلم بأنها كلما قصدت الخروج كانت في لعنة الله و ملائكته و إذا خرجت تحفها الشياطين من كل جانب و إذا أتت القبور تلعنها روح الميت و إذا رجعت كانت في لعنة الله، كذا في الشرح عن التتارخانية.

 

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (ج:2، ص:210، ط: دار الكتاب الإسلامي)

       امام قاضی سے سوال ہوا کہ عورتوں کا مزار پر جانا جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا "ایسی جگہ جواز اور عدم جواز نہیں پوچھتے، 

امام قاضی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے اِستِفْتاء (سُوال ) ہوا کہ عورَتوں کا مَقَابِرکو جانا جائز ہے یانہیں ؟ فرمایا : ایسی جگہ جواز وعَدَمِ جواز( یعنی جائز و ناجائز کا) نہیں پوچھتے ، یہ پوچھو کہ اس میں عورت پر کتنی لعنت پڑتی ہے ؟ جب گھر سے قُبُور کی طرف چلنے کا ارادہ کرتی ہے اللہ َّ(عَزَّوَجَلَّ) اورفِرشتوں کی لعنت ہوتی ہے جب گھر سے باہَر نکلتی ہے سب طَرفوں سے شیطان اسے گھیر لیتے ہیں ، جب قبر تک پہونچتی ہے میِّت کی روح اُس پر لعنت کرتی ہے جب تک واپَس آتی ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی لعنت میں ہوتی ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ ج9 ص557)

اسلام نے عورتوں کی عزت و آبرو اور پاکدامنی کو خاص اہمیت دی ہے، بہت سی عبادات ضرور اہم ہیں مگر جس عبادت کے ادا کرنے میں عزت و آبرو اور پاکدامنی کے لٹنے کا خطرہ ہو تو وہاں بھی عزت کی حفاظت ہی کو ترجیح حاصل ہے، مثلاً حضور ﷺ کے دور میں عورتیں جمعہ نماز کے لیے پردے کے ساتھ جاتی تھیں اپنے محرموں اور شوہروں کے ساتھ مگر جب جب حضرت عمر کے دور میں فتنے بڑھنے لگے تو انہوں نے عورتوں کی عزت و آبرو کی حفاظت کے پیش نظر منع کر دیا۔ 


"عن عمرة بنت عبد الرحمن، أنها سمعت عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم تقول: «لو أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى ما أحدث النساء لمنعهن المسجد كما منعت نساء بني إسرائيل». قال: فقلت لعمرة: أنساء بني إسرائيل منعن المسجد؟ قالت: «نعم»".


( مسلم،1/ 328، کتاب الصلاۃ، باب منع نساء بنی اسرائیل المسجد، ط:دار إحياء التراث العربي – بيروت)

عمرہ بنت عبد الرحمن کہتی ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے ہوئے سنا: "اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج عورتوں کی کارستانیاں دیکھ لیتے تو انہیں مسجد میں آنے سے منع فرما دیتے جیسے بنی اسرائیل کی خواتین کو منع کیا گیا تھا" راوی کہتے ہیں میں نے عمرہ سے پوچھا: "کیا بنی اسرائیل کی خواتین کو مسجد میں آنے سے روکا گیا تھا؟" تو انہوں نے کہا: "ہاں ۔ 

*چست لباس اور برقعہ پر ڈیزائن*

جہاں بے حیائی اور بے پردگی عروج پر ہے وہیں ایسے کپڑے بھی وافر مقدار میں پائے جارہے ہیں جنہیں عورتیں پہن کر بھی عریاں ہوتیں ہیں اور آج عوام میں اسی کی مقبولیت بھی حاصل ہے، یہ لباس کہیں بالکل کھلے ہوتے ہیں جس سے کبھی پوری آستین، کبھی پیٹ، کبھی ران، کبھی بازو وغیرہ ننگے ہوتے ہیں، اللہ محفوظ رکھے۔ 

پھر ایسے لباس اتنے چست ہوتے ہیں کہ بدن کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ پوری ہیئت نظر آتی ہے، اس سے بھی زیادہ شرمناک بات یہ ہے کہ آج کل کے نقاب بھی فیشن کے طور پر بنائے جا رہے ہیں جو بالکل چست اور ڈیزائن دار ہوتے ہیں، نقاب پردے کے لیے اور فتنے سے بچانے کے لیے تھے مگر آج کے ڈیزائن دار نقاب خود فتنے کا حصہ ہے الا ماشااللہ۔ 

ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس حفصہ بنت عبدالرحمن باریک دوپٹہ اوڑھ کر آئی تو حضرت عائشہ صدیقہ نے ان کے دو پٹہ کو پھاڑ ڈالا اور موٹا دوپٹہ دے دیا (مؤطاامام مالک) اس سے پتہ چلتا ہے کہ باریک لباس جس سے بدن جھلک رہا ہو استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ 

*والدین کی ذمہ داری*

ہر والدین کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کو بچپن ہی سے باحیا بنائیں اور بالخصوص اپنے گھر کی عورتوں اور بچیوں کو پردے کا حکم دیں اور سختی سے شریعت کا پابند بنائیں، 

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے "یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ"ترجمہ:اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں

(التحریم 6) 

وما علینا الا العمل والبلٰغ


محمد اورنگ زیب عالم رضوی مصباحی (پرنسپل، دارالعلوم گلشن محمدی ڈنڈئی گڑھوا جھارکھنڈ)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

کیا فائدہ ایسی تعلیم کا جو کافر کردے

*حافظ ملت ایک انقلابی شخصیت*

*غوث اعظم عبدالقادر* جیلانی رحمۃاللہ علیہ *کا علمی مقام* ⁦