جمہوری ملک میں جمہوریت کہاں ہے؟
*جمہوری ملک میں جمہوریت کہاں ہے؟*
✍️تحریر: محمد اورنگ زیب عالم مصباحی(دارالعلوم غریب نواز جھلوا گڑھوا)
نظام حکومت بادشاہی ہو جمہوری ہو یا پھر اشتراکی بہر صورت قوم اور رعایا کے لیے سودمند اسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ مجوزہ دستور اور قانون پر بالاستیعاب عمل ہو، عدالت و انصاف کا بول بالا ہو ، فیصلے میں رعایا پر مساوات ہو ۔
اس کے برعکس جب نظام حکومت میں قانون ساز ادارے اور ناظم حکومت خود عمل نہ کریں، یا عدالت میں ناانصافی کے ذریعے اسے شرمسار کیا جائے، مساوات کا گلا گھونٹ دیا جائے، رعایا کے فلاح و بہبود کے بجائے انہیں ساکت کرنے کی تگ و دو ہو تو پھر اپنے ہی ملک کے باشندے عہدیداران کو دشمن معلوم پڑنے لگتی ہے، اور انجام قوم کی بربادی، دستور، قانون، انصاف،عدالت اور خود حکومت کا بھی خاتمہ نتیجہ خیز ہوتی ہے۔ دشمن ملک آسانی سے حملہ آور ہو کر یا مرعوب کرکے قبضہ جمانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
جمہوری نظام والے ممالک میں ایک نام وطن عزیز ہندوستان کا بھی آتا ہے، مگر افسوس کہ دستور پر عدم عمل کہیے یا فرقہ پرست طاقتوں کا منصوبہ، عدالتی نظام کی کوتاہی سمجھیے یا لٹیرے سیاست دانوں کا فریب؛ ہمارا ملک اور معاشرہ ہر چہار جانب سے بدامنی اور منافرت کے پنجے میں جکڑا ہوا ہے، جیسے جمہوریت کی روح پرواز کرگئی اور لاش باقی رہ گئی جو دن بدن سڑتی گلتی نظر آ رہی ہے۔
یوں تو آزادی سے پہلے ہی ان منصوبوں پر مشورہ کر لیا گیا تھا مگر انہیں موقع آزادی کے بعد میسر آیا، موقع پاتے ہی نفرتوں کے بازار گرم کرنے میں سرگرداں ہوگئے۔ ہر بولنے والی اقلیتوں کی آواز کو قید و بند سے سہمانے کی کوشش کی جانے لگی، ناکامی کے بعد انہیں قتل ممکنہ امید تھی۔ نتائج یہ نکلے کہ لاکھوں نوجوان جو اس ظلم کے مخالف تھے مگر ہندوستان کے مستقبل کے روشن چراغ تھے انہیں سلاخوں کے پیچھے فرضی الزامات کا سہارا لے کر بجھا دیا گیا۔ حتی کہ ماحول یوں ہو گیا کہ ہر فتنہ ہر فساد اور ہر دہشتگردی میں جبرا مسلم چہرے دکھائے جانے لگے۔ مسلموں کی بربادی کے ہزار اسباب میں یہ سبب سرفہرست یہ تھے کہ فرقہ پرست طاقتوں کے ہتھے چڑھ کر جان گنوانا، دوسرا انہیں کے منصوبوں کے تحت مفروضہ مقدمات کے ذریعے قید و بند پھر موت۔ شاید یہ سب کم تھے جو ایک دہائی قبل حکومت تبدیل ہوئی، نئی حکومت سے کافی امیدیں وابستہ تھیں کہ ان کو مطلوبہ چیز کے حصول سے شاید وہ ظلم سے باز آجائیں، مگر ان کی سیاسی چالیں کافی خطرناک ثابت ہوئیں، قبل از حکومت " الیکشن کمیشن ان کے محافظوں کو اپنا گرویدہ بنائے، فوج، پولیس، حفاظتی، معاشی، اقتصادی تعلیمی ہر اعتبار سے نااہلی کے باوجود اپنے پروردہ بندوں کے حوالے کئے، عدلیہ کو زرخرید غلام اور میڈیا پرنٹ ہو یا الیکٹرانک اپنی ضمیر فروشی کرکے حکومت کے باندی ٹھہرے۔
نتیجہ ملک شکست و ریخت، قتل وغارت کا گھر ہوگیا، پہلے فرضی الزامات میں قید و بند کے حوالے ہوتے تھے مگر اب اکثریت اقلیتوں کو ڈائریکٹ ٹارگٹ کرکے قانون کی دھجیاں بکھیرنے لگی۔ مسلمانوں کو ملک سے نکالنے کی دھمکی ان کے مذہبی رہنماؤں کی گستاخی، ان کے گھر مکان مساجد و مدارس پر حملے عام ہوگئے، مدارس و مساجد (جہاں سے آزادی کی ابتداء ہوئی) کو دہشت گردی کا اڈہ بتانے لگے، کشمیر سے مسلمانوں کی خصوصیت ختم کی گئی، بابری مسجد ظلما چھین لی گئی، اور صرف یوپی میں ہزاروں بے قصوروں کا گھر پہ بلڈوزر چلا دیا گیا، ابھی ہلدوانی میں پانچ ہزار گھر بلڈوزر کے نشانے پر ہیں، ان نتائج سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جمہوریت کس مقام پر ہے اور ہندوستان میں اس کی حیثیت کیا رہ گئی ہے۔
دستور سازی کرنے والوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ اتنی جلدی شکست و ریخت سے دوچار ہوکر جمہوریت کی روح پرواز کر جائے گی اور آمریت اس کی لاش رہ جائے گی۔ مگر ایسا ہو بھی گیا ، اور ہندی جمہوریت کی غالباً یہی حقیقت بچ گئی ہے۔
جمہوریت کے بیچ پھنسی اقلیت تھا دل
موقعہ جسے جدھر سے ملا وار کر دیا
(نعمان شوق)
حالانکہ دستور ہند نے عوام کو حکومت منتخب کرنے کی آزادی دی، انہیں تلقین کی گئی تھی کہ مذہبی آزادی ان کا بنیادی حق ہے، ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کی جائے گی، اقلیت اکثریت قانون کی نظر میں برابر ہیں، کسی کو بغیر مقدمہ چلائے، بغیر صفائی دئیے، بغیر قصور کبھی سزا نہ دی جائے گی۔ مگر یہ سارے دستوری حقوق آمریت (جو اپنے کو جمہوریت کا علمبردار بتاتی ہے) نے سلب کر لیئے، بدلے میں وہ دئیے جن کا ہم دن رات مشاہدہ کرتے ہیں،یعنی درد و کرب، ظلم ستم، ناانصافی لوٹ مار، جاہلیت وغیرہ ہزاروں پریشانیاں۔ ان مناظر کا مشاہد پکار رہا ہے کہ جمہوری ملک میں جمہوریت کہاں ہے؟ مگر حکومت عدالت میڈیا کوئی سننے کو تیار نہیں۔
نام اس کا آمریت ہو کہ ہو جمہوریت
منسلک فرعونیت مسند سے تب بھی تھی اب بھی ہے
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں