اشاعتیں

حضرت مولانا مفتی محمد اورنگ زیب عالم رضوی مصباحی ایک تعارف*

تصویر
 *حضرت مولانا مفتی محمد اورنگ زیب عالم رضوی مصباحی ایک تعارف* *از قلم* *حدیث انصاری مصباحی* گڑھوا جھارکھنڈ *نام و نسب* محمد اورنگ زیب عالم بن اصغر علی بن مرحوم عبداللہ بن مرحوم بِپھّن شیخ بن مرحوم جیتو میاں انصاری *تاریخ پیدائش* ١٥ستمبر ١٩٩٧ء کو قصبہ دھرکی میں سوموار کو پیدا ہوئے مگر آدھار کارڈ میں ٢,١١,٢٠٠٠ ہے *پورا پتہ* مقام + پوسٹ + تحصیل(block) + تھانہ، دھرکی ضلع گڑھوا جھارکھنڈ *آبائی وطن* ضلع گڑھوا سے دو کلومیٹر دور مشہور قصبہ کلیانپور کے اصلی باشندے تھے *خاندانی پس منظر* ابتدائی دور میں انتہائی غریب تھے، کیونکہ دادا دادی اس وقت ہی انتقال کر گیے جب کہ والد صاحب محض چار یا پانچ سال کے تھے، اور ان کے دادا ١٩٦٦ء کی قحط سالی میں ساری جائیداد کلیانپور سے بیچ کر دھرکی آ گیے، مگر یہاں بھی مخصوص لوگوں نے دھوکہ دیا اور سب پیسے ہضم کر گیے، اسی دوران دادا دادی انتقال بھی کر گیے، اور گھر بار جو بچے تھے کلیانپور میں بھائیوں نے قبضہ کر لیے، اس طرح ان کے والد یتیم بے سہارا ہو گیے۔ مگر والد صاحب بچپن سے مزدوری کیے اسی دوران نماز وغیرہ کی ترکیب اور کچھ ضروری مسائل بھی سیکھ لیے، اور ان کے والد...

ویلنٹائن ڈے جیسی منحوس رسموں سے بچیں

تصویر
 *ویلنٹائن ڈے جیسی منحوس رسموں سے بچی ں* برائے کرم معاشرے میں بےحیائی پھیلانے والے رشتوں کا خاتمہ کریں تحریر: مفتی اورنگ زیب عالم رضوی مصباحی، گڑھوا        میرے پیارے نبی ﷺ کو جن اخلاقی اوصاف کے ساتھ مبعوث فرمایا گیا اسی میں ایک اہم ترین وصف حیا بھی ہے، جو اسلامی تعلیمات کا خاصہ بھی ہے، جس کے متعلق نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ"حیا شعبۂ ایمان سے ہے، یہ وہ شرافت و مروت کی علامتی وصف ہے جو انسانی فطرت ہی کا خاصہ ہے، جس کے ذریعہ انسان کمال اخلاقیات اور انسانیت کا پیکر بن جاتا ہے، یہ انہی اوصاف میں سے ایک ہے جو انسان کو حیوانیت سے طرۂ امتیاز بخشتا ہے اور برے کاموں اور بری باتوں سے روکتا ہے اور فواحش سے محفوظ رکھتا ہے،حیا کی انہیں اہمیتوں کے پیش نظر قرآن و سنت میں کثرت سے ذکر اور تاکید کی گئی ، آپ دیکھیں کہ عورت کو پردے کا حکم دیا گیا کہ غیر محرموں سے پردہ کریں، اپنی خوبصورتی اور زیب و زینت کو غیر محرموں پر ظاہر نہ کریں، وہیں مردوں کو عورتوں کا حاکم ضرور بنایا مگر انہیں بھی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا تاکہ فحش اور بدکاریوں سے اجتناب کے ساتھ اس کے خدشات سے بھی مکمل د...

*خواجہ غریب نواز کا تبلیغی اسلوب*

تصویر
تحریر: اورنگ زیب عالم رضوی مصباحی(دارالعلوم غریب نوا ،جھلوا)    آج ہم چاروں طرف برائی بے حیائی، فحاشی ، ظلم وتشدد کا بازار گرم دیکھ کر دل میں کہتے ہیں کہ اس قوم کا سدھرنا ناممکن ہے، یہ ہمیشہ برائیوں میں ہی ملوث رہیں گے۔ مگر آپ ذہن میں یہ بات بٹھا لیں کہ ہردور میں برائیاں ، برے اور ظالم سفاک لوگ رہتے بھی ہیں اور پہلے بھی رہتے تھے، مگر اس دور کے اولیاء ، قطب، مجتہدین اور فرشتہ صفت صالحین کے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے جہلاء و سفاک اپنی خطا اور سفاکی سے توبہ کرکے راہ ہدایت پہ گامزن ہو جاتے تھے۔ ہمارا ماننا ہے کہ واقعی اگر ہم خلوص کے ساتھ تبلیغ اسلام کریں تو آج بھی کوئی بعید بات نہیں کہ کثیر تعداد میں لوگ راہ ہدایت اختیار کر لیں گے۔ مگر شرط ہے کہ ہم اپنے اسلاف کے سیرت و کردار کے آئینے میں یہ کام کریں۔ ان کے انداز و اسلوب کو اپنائیں۔ جب ہم اپنے اسلاف کو دیکھتے ہیں تو بےشمار متبرک ہستیوں میں ایک ہستی چھٹی صدی ہجری کے مجدد عطائے رسول سلطان الہند خواجۂ خواجگاں خواجہ معین الدین چشتی اجمیری معروف بہ غریب نواز بھی ہیں جن کی تبلیغ کے حسن اسلوب اور تربیت کے اعلی معیار نے نہ صرف چند ...

جمہوری ملک میں جمہوریت کہاں ہے؟

تصویر
*جمہوری ملک میں جمہوریت کہاں ہے؟* ✍️تحریر: محمد اورنگ زیب عالم مصباحی(دارالعلوم غریب نواز جھلوا گڑھوا)    نظام حکومت بادشاہی ہو جمہوری ہو یا پھر اشتراکی بہر صورت قوم اور رعایا کے لیے سودمند اسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ مجوزہ دستور اور قانون پر بالاستیعاب عمل ہو، عدالت و انصاف کا بول بالا ہو ، فیصلے میں رعایا پر مساوات ہو ۔      اس کے برعکس جب نظام حکومت میں قانون ساز ادارے اور ناظم حکومت خود عمل نہ کریں، یا عدالت میں ناانصافی کے ذریعے اسے شرمسار کیا جائے، مساوات کا گلا گھونٹ دیا جائے، رعایا کے فلاح و بہبود کے بجائے انہیں ساکت کرنے کی تگ و دو ہو تو پھر اپنے ہی ملک کے باشندے عہدیداران کو دشمن معلوم پڑنے لگتی ہے، اور انجام قوم کی بربادی، دستور، قانون، انصاف،عدالت اور خود حکومت کا بھی خاتمہ نتیجہ خیز ہوتی ہے۔ دشمن ملک آسانی سے حملہ آور ہو کر یا مرعوب کرکے قبضہ جمانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔        جمہوری نظام والے ممالک میں ایک نام وطن عزیز ہندوستان کا بھی آتا ہے، مگر افسوس کہ دستور پر عدم عمل کہیے یا فرقہ پرست طاقتوں کا منصوبہ، عدالتی نظام کی کوتاہی س...

نئے سال کی خرافاتیاں

تصویر
 نئے سال کی خرافاتیاں  زندگی میں خوشی اور غم کا اتار چڑھاؤ لگا رہتا ہے کبھی خوشی میسر ہوتی ہے تو کبھی غم، یوں کہہ لیا جائے کہ زندگی خوشی اور غم کا سنگم ہے  تمام ممالک میں خوشی منانے کا الگ الگ دن ہے لیکن ایک دن ایسا دن ہے جس دن میں تمام ممالک میں جشن کا اہتمام کیا جاتا ہے، جسے عیسوی تاریخ کے حساب سے نئے سال کا دن کہا جاتا ہے اور وہ دن انگریزی کلینڈر کے حساب سے ایک جنوری کو نیا سال مناتے ہیں اور اس رات میں ایسے ایسے گناہ کیے جاتے ہیں جس کو سن کر قلب مسلم حیران رہ جاتا ہے اور کچھ ہمارے احباب دھیرے دھیرے اس گناہ عظیم میں منہمک / مشغول ہورہے ہیں جس سے انہیں باخبر کرنا کرنا ضروری ہے اور ان افعال قبیحہ و شنیعہ سے نفرت دلانا بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ نئے سال کا جوش و جنون صرف چھوٹے بچوں یا جوانوں تک محدود نہیں بلکہ ہر طبقے کو ہے جیسے ہی دسمبر کا مہینہ آتا ہے تو تمام کے سروں پہ ایک ہی خمار رہتا ہے کہ جنوری ہم خوب خوشیوں کے ساتھ منائینگے عیش کرینگے خوب پیسے اڑائینگے، اور اس خوشی میں اتنے منہمک ہوجاتےہیں کہ بہت برے افعال کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں اور انہیں شرم تک نہیں آتی، جنون میں تو ...

نئے سال کے خرافاتی جشن سے بچیں

تصویر
  *نئے سال کے خرافاتی جشن سے بچیں* تحریر: اورنگ زیب عالم رضوی مصباحی(خادم: دارالعلوم غریب نواز،جھلوا،گڑھوا) مکرمی!         انسانی زندگی میں غم اور خوشی معمولی بات ہے، اور یہ عموماً اللہ کی جانب سے آزمائش کی گھڑی ہوتی ہے کہ غم میں ہوش کھو کر کہیں غیر شرعی افعال کے شکار نہ ہو جائیں اور خوشی کے اوقات میں اپنی اوقات بھول کر فضول خرچی، رقص و سرور اور عیاشی کے شکار نہ ہو جائیں بعدہ ہزاروں دنیوی ذلّتیں جھیلتے آخرت کی عذاب میں گرفتار ہوجائیں۔ ایسے موقعوں پر بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کہ غم میں ہوش کھونے کے بجائے صبر و تحمل اور خوشی میں پاگل ہونے کے بجائے حمد و شکر کا دامن تھامے۔        مگر آج کے اس من مانی اور خودمختاری کے دور میں لوگوں کے رویّے مذکورہ احتیاط سے میلوں دور ہوتے ہیں، کہ غم میں حواس باختہ ہو کر رونے چلانے کپڑے پھاڑنے حتی کہ خود کشی تک کے غیر شرعی افعال کر جاتے ہیں اور دن بدن نت نئے رنگ و ڈھنگ میں ترقی پذیر بھی ہوتے ہیں، وہیں معمولی سی مسرت پر کروڑوں کا سرمایہ برباد کر بیٹھتے ہیں بالخصوص جبکہ کوئی خوشی ہو بھی نہیں اور جبری مسرت کا اظہار...

جبری جہیز کی لعنت

تصویر
آئے دن مسلم معاشرے میں نئے نئے رسومات و خرافات جنم لیتے رہتے ہیں، ان ہی رسومات سیئہ میں سے ایک جہیز ہے جسے آج کل کے لوگ لڑکی کے والدین سے قبل نکاح وصول کرتے ہیں، کہ اگر میری ان چیزوں کی تکمیل کی جائےگی تبھی اپنے لخت جگر کا نکاح آپ کی بیٹی کے ساتھ وجود میں آئےگا ورنہ نہیں، قابل غور بات یہ ہے کہ نکاح جیسے عظیم چیز کے بدلے پیسہ مانگنے میں حیا تک نہیں آتی بلکہ الٹا اس کو اپنے اور اپنے خاندان کے لیے باعث فخر سمجھاجاتا ہے، اگر اس کو ختم کرنے میں پہل نہ کیا تو وہ دن دور نہیں جب پورا معاشرہ تباہی کے دہانے پہ کھڑی ہوجائےگی، تو اس وقت ہمارے پاس تماشائی بننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہےگا، خدا اس وبا کو مسلمانوں سے دور کرے جہیز کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ جہیز ایک قبیح چیز ہے جو کہ ہمارے معاشرے میں طاعون کی طرح پھیل چکا ہے اور  اچھے اچھے لوگوں کو اپنی چپیٹ میں لے لیا ہے اور اس قبیح چیز کی وجہ سے لاکھوں کروڑوں بہنوں بیٹیوں کی زندگی جہنم بن گئی ہے،  یہ میں اس لئے کہہ رہاہوں کہ اسی منحوس وبا کی وجہ سے شریف خاندان کی بیٹیوں کے آنکھوں میں بسنے والا رنگین خواب چھن گیا ہے، ان کی تمنائیں آرزوئیں حسرتیں خواہشیں...